مجرّد عقل و تجربہ نے ۳۰۰ سال میں ایسی دنیا بنائی ہے
از: ڈاکٹر ایم
اجمل فاروقی ، ۱۵- گاندھی
روڈ، دہرہ دون
جس طرح آج ہمارے ملک میں ایک
”چمکتا بھارت“ اور ایک ”سسکتا بھارت“ ساتھ ساتھ نظر آرہے ہیں وہی
حال پوری دنیا اور دنیا کے ہر ملک کا ہے۔ جب سے دین
کی رہنمائی کو بطور نظام زندگی بن باس دے کر خودساختہ ملکی،
معاشرتی، سیاسی قوانین بنائے گئے اور انھیں کی
بنیادوں پر انسانی معاشرہ اٹھان پارہے ہیں اور ملک بن رہے ہیں
تبھی سے چمکتی دنیا اور سسکتی دنیا دونوں ہی
مجموعی طور پر مضطرب اور پریشان ہیں۔ صرف عقل اور تجربہ کی
رہنمائی میں انسانی زندگی کا سفر طے کرکے انسانیت
کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کا دعویٰ کرنے والے نظریات
کی کارگذاری ہمارے سامنے ہے۔ بظاہر تمام چمک دمک، ترقی کے
دعوی، ٹیلی مواصلات کے حیرت انگیز نظام، علاج
ومعالجہ کی بے مثال سہولتوں، تعلیم و ٹکنالوجی کی حیران
کن پیش قدمیوں کے باوجود انسان پریشان ہے۔ انڈیابھی
پریشان ہے بھارت بھی پریشان ہے۔ یوروپ اورامریکہ
کی پریشانیاں الگ ہیں اور اس کے مظاہر الگ ہیں ایشیا
اورافریقہ کے مسائل الگ ہیں اور ان کا اظہار بھی الگ طرح سے
ہورہا ہے۔ انسان،انسانیت اورانسانی قدریں سب سے زیادہ
سستی ہوگئی ہیں، انسانی جان کی قیمت نہیں
رہی، انسانی جذبات، احساسات، محبت و مروّت، خلوص سب بے قیمت سکہ
ہوگئے ہیں۔ بے غیرتی، بے شرمی، بے حیائی،
لوٹ کھسوٹ اور طاقت کی فرمانروائی ہی سکہ ہائے رائج الوقت ہوگئے
ہیں اور اس سب کے نتیجہ میں دنیا بھر میں انسانی
معاشرہ میں ہمہ جہت، ہمہ گیر فساد پیدا ہورہا ہے۔ نئے
ورلڈ آرڈر کے ٹھیکہ دار حیران ہیں کہ ان کے مالیاتی
نظام کا بلبلہ کیسے پھوٹ گیا، کیسے عقل کی رہنمائی
اور کھاؤ پیو موج کرو کے فلسفہ کے تحت دنیا فقیدالمثال غذائی
بحران، پینے کے پانی کے بحران، ماحولیاتی تبدیلی
کے بحران، گلوبل وارمنگ کے بحران، عالمی کسادبازاری کے بحران، سماجی
رشتوں کی بے حرمتی کے بحران، خودکشیوں اور برادرکشیوں کی
وباء وغیرہ وغیرہ میں مبتلا ہے۔ انسانیت کے بڑوں
کوغور کرنا ہوگا کہ کیا یہ دنیا جو ۳۰۰ سال کے خدا بیزار، سائنس پرست عقل
پرست تجربہ کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے کیا یہی
آئیڈیل دنیاہے؟ کیا دنیا کے تمام انسانوں کی
اکثریت کی ۳۰۰ سال کی
کاوشوں کا ثمر یہی فتنہٴ وفساد، مے و قمار وہجومِ زنان بازاری
سے پر یہی دنیا انسانیت کی معراج ہے؟ آگے کچھ صفحات
میں پیش کیے گئے اعداد وشمار انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے حیات
کی ناکامی کی کہانی خود کہتے ہیں:
* صرف دہلی میں طلاق کی تعداد ۲۰۰۳ء میں ۷۰۰۰ سالانہ تھی۔
۲۰۰۸ء میں بڑھ کر ۸۵۴۳ ہوگئی۔
* یورپ میں ہر ۳۰ سکنڈ میں ایک حمل گرایاجاتا ہے۔
ہر سال ۱۴۲ ملین حمل
گرائے جاتے ہیں۔ ہر ۳۰ سکنڈ
بعد ایک شادی ٹوٹتی ہے۔ ہر تین گھروں میں سے
دوگھروں میں بچہ نہیں ہے۔ (Institute for
Family Policy-London)
* ہندوشادی قانون Hindu Marriage
Act گھروں کو جوڑ نہیں توڑ رہا ہے۔
(Supreme
Court of India - 17.5.2008)
* ترقی وآزادیٴ نسواں برطانیہ
میں C-vote کے ذریعہ کرائے گئے سروے میں پتہ
چلا کہ وہاں کالج سے فارغ ہوتے ٪۵۰ لڑکیاں اپنی عصمت گنوا چکی ہوتی
ہیں۔ ہر ۲۳ لڑکی
میں سے ایک اسقاط گراچکی ہے۔ سب سے کم عمر کا اسقاط ۱۲ سالہ لڑکی نے گرایا ہے۔
* ہمارے ملک میں TOI کے سروے میں طلبا کی ٪۳۰ تعداد نے کہا کہ اساتذہ کو خوش
کرکے نمبر وغیرہ بڑھوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتیں۔
امریکہ کی ایک طالبہ نے اپنی اسکول فیس جمع کرنے کے
لیے نہایت ماڈرن طریقہ سے انٹرنیٹ پر ”کنوارے پن برائے
فروخت“ کا اشتہار دے کرانجام دیا۔ جس کے لیے کروڑوں ڈالر کی
آفر آگئی۔ مگر کسی نے بھی عصمت کو محفوظ رکھتے ہوئے مدد
کرنے کی پیشکش نہیں کی۔
* انگلینڈ میں ہاؤس آف کامنر میں
پیش شدہ بل کے پاس ہوجانے کے بعد ہم جنس پرستی یا اس میں
ملوث افراد کو برابھلا کہنے پر سات سال کی سزا دی جاسکے گی۔
* ایک امریکی شہری عام
ہندوستانی کے مقابلہ ۱۹ گنا زیادہ
کاربن ڈائی آکسائڈ پیداکرتا ہے۔ دنیا کا درجہٴ
حرارت Global
Warming بڑھانے میں
اس گیس کا بڑا رول ہے۔ اس کے نتیجہ میں:
(۱) ہمالیائی
اور قطب جنوبی وقطب شمالی کے گلیشیر معمول سے زیادہ
رفتار سے پگھل رہا ہے۔
(۲) ہواؤں کا بہاؤ
متاثر ہورہا ہے۔
(۳) درجہٴ حرارت
بڑھنے سے اناج کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ ہمارے یہاں
اگر درجہٴ حرارت 4.4o C
بڑھا تو ہندوستان کی زرعی پیداوار ٪۴۰-۳۰ کم ہوجائے گی۔
(۴) درجہٴ حرارت
2o
C اور بڑھ گیا تو مدراس اور ممبئی کے ۷۰ لاکھ لوگ بے گھر ہوجائیں گے۔
(۵) درجہٴ حرارت
بڑھنے سے مالدیوپورا اور بنگلہ دیش کا ٪۱۸ علاقہ زیر آب ہوجائے گا۔
(۶) ہمارے ملک میں
اناج کی فی کس پیداوار جو ۹۰ کی دہائی میں ۱۷۹ کلو فی کس تھی وہ اب ۱۶۳کلو گرام فی
کس ہوگئی ہے۔
* عورتوں کی مدد کے خاطر بنائے گئے خصوصی
قانون 498A کو خواتین ٪۳۰ تعداد نے خانگی جھگڑوں میں
غلط طور پر استعمال کیا۔(UNIFEM)
* WHO
کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ۲/ارب لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے کینسر، امراض جگر و صدر کے خطرات ٪۳۰ تک بڑھ جاتے ہیں۔
* ہندوستان میں ہونے والے سڑک حادثات کا 1/3
شراب پینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے
والی کل اموات کا ٪۷․۳ شراب نوشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
* فٹ پاتھ پر رہنے والے ٪۲۰ بچوں کو اپنے قریبی
لوگوں کے استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
* بھارت میں ہر سال ۲۰ لاکھ بچیوں کو رحم مادر میں قتل کردیا
جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں پنجاب، ہماچل پردیش، چندی
گڑھ، گجرات میں مرد- عورت کا تناسب خطرناک حد تک بگڑگیا ہے۔
پنجاب کے ایک کنویں میں ایک ساتھ ۱۳۵ سفات شدہ مادہ جنین برآمد کیے
گئے۔(11.8.2006)
* ہندوستان میں (NACO) National
Aids Control Organization پہلے ہی یہ مانگ کرچکا ہے کہ جسم فروشی کو قانونی
پیشہ کا درجہ دے دیا جائے۔ پلاننگ کمیشن کی ممبر سیدہ
حمیدین نے بھی مانگ کی اس جرم کو قانونی تحفظ دیا
جائے۔(26.6.2006)
* سود Interest
اور جوا، جنھیں شریعت حرام قرار دیتی ہے
وہ جملہ انسانی مسائل کی جڑہیں۔ حالیہ مندی،
بینکوں کے دیوالیہ پن، اوراناج اور پیٹرول کی غیرمعمولی
چڑھی ہوئی قیمتوں سے نبٹنے کے لیے تمام حکومتیں سود
کی شرح کم کررہی ہیں، اناج اور ضروری اشیاء کی
تجارت میں سٹّہ بازی کی شکلوں کو بند کیاجارہا ہے۔
* غذائی اجناس میں سٹہ بازی کے
ذریعہ ان کے دام بڑھائے گئے۔ پیٹرول کی جب پیداوار
زیادہ تھی تب دام ۱۵۰ ڈالر
فی بیرل تھی اور اب OPEC
کے ذریعہ پیداوار کم ہوجانے کے باوجود دام صرف ۵۰ ڈالر فی بیرل کیوں
ہے؟
* CRIME-CLOCK 2005
میں ہر ۱۷ سکنڈ
میں ایک جرم ہوا۔ ہر پندرہویں منٹ پر ایک چھیڑ
چھاڑ کا کیس، ہر ۷۷ منٹ
پر جہیزی موت، ہر ۲۹ منٹ
پر ایک زنا، ہر ۱۷ منٹ
پر ایک قتل، ۶۱منٹ پر
ایک لوٹ اور ہر ۳۱ منٹ
پر ایک جنسی تشدد انجام دیا جارہاہے۔ (NCRB.Delhi)
* ۲۰۰۴/
میں
برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد محض ۵
لاکھ تھی۔ ۲۰۰۸/ میں
یہ تعداد تمام منفی پروپیگنڈوں اور سازشوں کے باوجود ۲۴ لاکھ ہوگئی۔ یعنی
تقریباً ۱۹ لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا۔
جو دوسری قوموں سے شرح نمو سے دس گنا زیادہ ہے۔
* دنیا کے دس بڑے مالیاتی ادارہ
خلیج میں ہیں جو غیرسودی نظام پر چلائے جارہے ہیں۔
وہ موجودہ اقتصادی بحران کو زیادہ بہتر جھیل پارہے ہیں۔
ہمیں بھی اس سے سبق لینا چاہیے۔
(Abhishek Singhvi-MP Rajya Sabha)
* اسلام سے نفرت کے ماحول میں دنیا یہ
نہیں دیکھ رہی ہے کہ Liberalism
اسلامی اقتصادیات و تعلیمات میں موجود
ہے۔ اسلام فری economy
اور نجی مالکانہ حقوق کو بھی تسلیم کرتا ہے
اور غیر منصفانہ نفع پر بھی روک لگاتا ہے۔ (سووک چکرورتی
ماہراقتصادیات)
* ہندوستان میں آزادی کے ۶۰ سال بعد بھی دوڈالر روزانہ
سے کم آمدنی والے افراد کی تعداد ٪۷۷ یعنی ۸۳ کروڑ ۶ لاکھ
ہے جب کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی رہنمائی میں صرف ۲۳ سال میں یہ نوبت آگئی
تھی کہ پوری خلافت میں زکوٰة لینے والا مستحق نہیں
رہ گیا تھا۔
* * *
-------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول –
جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء